نثار عزیز بٹ صاحبہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ سرتاج عزیز کی بہن ہیں اور نوائے وقت کے مجید نظامی ان کے شوہر کے بہنوئی ہیں۔ اس کتاب میں بیک وقت وہ اپنی سوانح عمری،سفر نامہ اور مختلف لوگوں کے خاکے بیان کرتی ہیں۔اپ کو اٹلی،فرانس،امریکا،برطانیہ اور انڈیا کی سیر کرائیں گی۔اپ کو قرات العلین حیدر ،ممتاز شیریں،جمیلہ ہاشمی،ہاجرہ مسرور،کی شخصیات کے خاکے پڑھنے کو ملیں گے ۔مصنفہ نےزندگی کا ابتدائی حصہ خیبر پختونخوا میں گزارا پھر اسلامیہ کالج کوپر روڈ لاہور میں داخلہ لیا پھر شوہر کے ساتھ کراچی چلی گئیں پھر اسلام اباد اور پھر شوہر کی retirement کے بعد لاہور رہایش رکھی۔ اکثر اپنے گہر والوں اور رشتہ داروں کا ذکر اپنے ناولوں کے کرداروں کی صورت میں کرتی ہیں۔ کوچہ رسلدار پشاور کا بھی ذکر ہے جہان ان کی سوتیلی والدہ کا میکہ اور رشتدار رہتے ہیں یہ قذلباش لوگ ہیں اور ان کی عورتیں منظر کشی میں مہارت رکھتی ہیں۔ مصنفہ کی اک بہو کے پھوپھا غلام اسحاق خان سابق صدر پاکستان ہیں ۔قیام پاکستان کے دنوں میں مصنفہ گاندھی جی اور congress کو سپورٹ کرتی ہیں۔ ان ک بھائ سرتاج عزیز مسلم لیگ کے حامی ہیں۔ مصنفہ اس ک بعد بھٹو صاحب کی شخصیات کے سحر میں مبتلا رہیں۔اپنے بہت سے رشتداروں کی موت کا ذکر اس دردناک انداز میں کرتی ہیں کہ رونگتھے کھرے ہو جتی ہن۔ 700 سے ذیادہ صفحات پر مشتمل اِک زخیم کتاب جائے . اِک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتی ہیں جب وہ لکھاریوں کی اِک محفل میں جا تی ہیں اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے رہے نثار عزیز بٹ مرد ہیں۔ ۔ اپنے ناول،نگری نگری پھرا مسافر، نے چراغ نے گلے، اور دریا کے سنگ کا بھی ذکر کرتی ہیں جس میں کچھ لوگوں کے کردار تفصیل سے بیان ہوے ہیں۔اس کتاب میں اپ کی ملاقات شا عر ا ادا جفری،ان کے شوہر نور ال حسن جفری جو ک سیکرٹری ایسٹبلشمنت بھی رہے،ممتاز مفتی،عکس مفتی،کشور ناہید،مسود اشر،قدرت اللہ شہاب،مختار مسود اور عذرا،ہاجرہ مسرور، خدیجہ مسرور،حجاب امتیاز الی،نعیم طاہر،یاسمین طاہر،نور افشاں،اشفاق احمد،بانو قدسیہ، شیخ منظور الہی سے بھی ہوگی۔ مصنفہ کے مطابق ناول کو لکھاری نہیں لکھتا بلکے ناول لکھاری کو لکھتا ہے۔ اکثر مصنفہ اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا سوچ کر depression میں چلی جتی ہیں۔